ہجوم کے رویے کے ماہرین کے مطابق سانحہ منیٰ جیسے حادثات بدترین ہوتے ہیں تاہم جیسا ہم سوچتے ہیں یہ واقعات ان وجوہات کے باعث پیش نہیں آتے۔
خیال رہے کہ سانحے میں اب تک کم از کم 1100 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ اس واقعے میں 40 سے زائد پاکستانی بھی جاں بحق ہوئے۔
اسکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی آف سینٹ انڈروز کے سوشل سائیکالوجی کے پروفیسر اسٹیفن ریچر کے مطابق مقبول تصور تو یہ ہے کہ ایسے واقعات کے دوران ایک مقام پر ضرورت سے زیادہ لوگ بھر جاتے ہیں اور گھبراہٹ کے باعث لوگ بھاگنا شروع کردیتے ہیں تاہم حقیقت اس کے مختلف ہے۔
لاس اینجلس ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے عام خیال مکمل طور پر غلط ہے، سانحے کے حوالے سے 'بھگدڑ' اور 'گھبراہٹ' جیسی اصطلاحات استعمال ہورہی ہیں لیکن بھگدڑ کا مطلب گھبراہٹ کا شکار ہوکر بھاگنا ہوتا ہے لیکن اس طرح کے واقعات میں عمومی طور پر لوگ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پاتے، دوڑنا تو دور کی بات ہے۔
انہوں نے کہا کہ مقبول خیال کے برعکس
سانحے کا آغاز انتہائی سادہ انداز میں ہوتا ہے۔ ایسے سانحات چلتے ہوئے ہجوم میں سے چند افراد کے لڑکھڑاکر گرنے جانے سے شروع ہوتے ہیں جبکہ ان کے پیچھے موجود لوگ آگے بڑھنے کے لیے دھکے دینا شروع کردیتے ہیں کیوں کہ وہ آگے موجود لوگوں کے جھمگٹھے سے لاعلم ہوتے ہیں اور ایسی ہی صورت حال پر ہلاکتوں کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسے سانحات میں نصف سے زائد اموات دم گھٹنے سے ہوتی ہیں کیوں کہ لوگوں کے پاس سانس لینے تک کی جگہ موجود نہیں ہوتی۔
گزشتہ ہفتے کے حادثے کے ایک عینی شاہد کے بیان سے بھی اس مفروضے کی تائید ہوتی ہے۔
خبر رساں ادارے اے پی کو عبداللہ لطفی نے بتایا کہ انہوں نے کسی کو وہیل چیئر سے گرتے ہوئے دیکھا اور ان کے پیچھے کئی دیگر افراد گرپڑے۔ 'لوگ سانس لینے کے لیے ایک دوسرے پڑ چڑھ رہے تھے۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ایک لہر کی طرح تھا، آپ آگے جاتے اور اچانک ہی پیچھے آجاتے۔
بشکریہ ڈان اردو پاکستان